ان فلاحی مجالس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر کسی شہر میں حکومتی سطح پر اس کا انتظام نہ ہو تو کسی NGO کہ تحت ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اور خرچہ حکومت خود بھی اُٹھاتی ہے۔ یہ ادارے نہ صرف شراب بلکہ منشیات،بے جا شہوانیت، غصہ، گھریلو و ازدواجی تعلقات کی اصلاح جیسی چیزوں میں بعینہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ آپ شاید سمجھ رہے ہوں کہ یہ کوئی اصلاحی مرکز نہ ہوا، چھُومنتر سنٹر ہوا کہ جو آیا ٹھیک ہو گیا۔ ایسا قطعاً نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص "چار مہینے، دس دن اور بارہ گھنٹے" سوبر رہا ہو، مزیداتنا ہی وقت سوبر رہے۔ بلکہ اس بات کا بھی امکان ہوتا ہے کہ فرطِ جذبات میں وہ باہر نکلتے ہی اپنا" روزہِ مےخواری" توڑ دے۔ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ایک دن بھی سوبر نہیں رہ پاتے۔تو پھر اس کا فائدہ کیا؟ بات صرف اپنے آپ پر قابو پانے کی نہیں ۔ نہ ہی عام شہری کی سی زندگی بسر کرنے کی ہے۔ معاملہ اپنی غلطی کے اعتراف کا ہے۔ اس بات کے استدراک کا ہے کہ :میں کیا سی کیا بن گیا، کس راہ پر چل دیا؟ کس چوراہے پہ آکھڑا؟ ایسی مجالس میں کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کچھ بولتے ہیں، نہ کسی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ۔ مگر انکی شرکت بھی نفع سے خالی نہیں۔ کہ ان کو استدراک ہے اپنے مرض کا۔ اور جو شخص اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہ ہو کہ اس میں کسی غیر نافع عادت کا جرثومہ ہے تو بھلا اُس کا کیا علاج ہو؟
میرا بھی دل کرتا ہے کہ پاکستان میں
اس طرح کی مجالس کا اہتمام ہو۔ لوگ ان میں شرکت کریں۔ میں بھی ان ملن گاہوں اور
اصلاح گاہوں کا حصہ بنوں۔ ہم اپنی اَغلاط کا اعتراف کریں اور ان کی اصلاح میں جت
جائیں۔ یہ مہذب معاشرے کی نشانی ہے اور تہذیب کی سیڑھیوں میں سے ایک سیڑھی ہے۔ ہم
گناہ کر کے اس کا الزام شیطان پہ ڈال دیتے ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کو
پایاءتکمیل تک پہنچانے میں شیطانیت ہماری ہی ہوتی ہے۔ العیازباللہ، وہ تو صرف
اکساتا ہے۔ جس کی سزاءحق اس کو مل کر رہے گی۔ پر گناہ کو انجام تو انسان ہی دیتے
ہیں ۔ اور عذاب بھی انسان کو بھگتنا ہے (اللہُ حفیظ)۔غلطی کرنے والے کو انسان اور
اس کو سدھارنے یا سدھارنے کی کوشش کرنے والے کو اچھا انسان کہا جاتا ہے۔ اگر خطا
کی ہے تو اس کا اعادہ کیوں نہیں؟ کیا ہمارا مسلمان صرف نعروں میں ہی گم ہو کر رہ
گیا؟ لگتا ہے جلسوں سے فراغت کے بعد کسی نے اس کو گھر کا راستہ نہیں دکھایا۔
کمیونٹی سنٹر کی یہ مجالس اور اصلاح کے اس طریقہ کو، مسلم صوفیہ کی Piracy کہا جائے تو
غلط نہ ہو گا۔ کسی دور میں یہ مجالس عام اور ایمان کی پرورش کا حصہ تھیں۔ پر اب
شاذ ہی دکھنے کو ملتی ہیں۔ کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت" گورا
لوگ" کو سزانہیں بلکہ انعام دینے کو دل کرتا ہے۔ اس رِیت کو قائم کرنے کی ایک
وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُن کے ہاں، مسائل و وسائل، دونوں حقیقی ہیں۔
ہماری طرح جعلی نہیں۔ اب ہم لوگ ۸
سے ۱۲ گھنٹے بجلی آنے یا جانےکا انتظار
کرنے جوگے ہی ہیں(یہ کرم شہرِلاہور کے ساتھ خاص ہے۔ بقیہ علاقوں کا اللہ مالک)۔
کاش، ہم بھی کسی ڈائس کے سامنے کھڑے ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ : "میں سوبر
ہوں۔۔۔!"
No comments:
Post a Comment