Tuesday, January 24, 2012

میں سوبر ہوں



یہ عام طور پر شام کا وقت ہوتا ہے۔ لوگ اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے شہر کے Community Center یا ملن گاہ  کا رخ کرتے ہیں۔ ایک مختصر مگر کشادہ ہال ، جہاں نشستیں لوگوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ شارکین کے سامنے ایک ڈائس رکھا ہوتا ہے۔ جس پر مجلس کا میزبان وقفے وقفے سے حاضرین میں سے کسی نہ کسی کو بلاتا رہتا ہے۔ باری کیوِن کی آتی ہے۔ کیوِن سنبھلے قدموں کے ساتھ ڈائس کا رخ کرتا ہے۔ اپنا گلا صاف کرتا ہے اور حاضریں کو Hi کہتا ہے۔ حاضرین گرم جوشی کے ساتھ کیوِن کو Hi کا جواب دیتے ہیں۔ وہ گویا ہوتا ہے: "میرا نام کیوِن ہے اور میں ایک Alcoholicہوں"۔ لوگ ایک مرتبہ پھر "Hello Kevin" کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ "میں سوبر ہوں۔۔۔ پچھلے چار ماہ، دس دن اور بارہ گھنٹے سے!" ۔ ہال لوگوں کی مختصر تعداد کی پُرتپاک تالیوں سے گونج اُٹھتا ہےاور کیوِن اپنی مسکراہٹ کو قابو نہ رکھ پاتے ہوئے ہنس دیتا ہے۔اُس کو احساس ہوتا ہے کہ آخر کار کچھ تو ہے جو اس نے حاصل کر لیا۔  یہ منظر تھا AA یعنی 'Alcoholics Anonymous' کے ایک سیشن کا۔ اس میں شرکت کرنے والے لوگ مختلف جگہوں سے، مختلف رنگ و نسل ، مختلف پیشے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھ سکتےہیں۔ ان سب کا مقصد شراب جیسی لعنت سے چٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نشہ اور لت، دو مختلف چیزیں ہیں۔ نشہ تو دن، دو دن میں اتر ہی جاتا ہے۔ پر اگر کسی کا م کی لت پڑ جائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا، لت زدہ کے لیے تقریباً نہ ممکن ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کے لیےامریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں چھوٹی چھوٹی عوامی ملن گاہوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن میں کرائے جانے والے اجتماعات لوگوں کو ان کو لاحق لت سے نجات دینے میں تعاون فراہم کرتے ہیں۔ ان مجالس کے سر پرستی ایک ماہرِ نفسیات، اس کے اسسٹنٹ اورعلاج سے بہتری پانے والے سابق افراد ہوا کرتے ہیں۔ ان مجالس میں طےہوتا ہے کہ شرکاء کی اجازت کے بغیر ان کی شناخت عیاں نہ کی جائے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ کیوِن ، کیوِن ہی ہو، سمِتھ بھی ہو سکتا ہے۔ مجلس کا میزبان شرکاء کو اپنی لت سے نجات کے لیے مختلف سجھاؤ اور طریقوں سے مدد کرتا ہے۔ ہر فرد کو باری دی جاتی ہے کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیردیگر ساتھیوں کے ساتھ ، بات چیت کے ذریعے اپنے مسئلے میں شریک کرے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس نے اپنی خرافات پہ کس حد تک قابو پالیا ہے۔ اگر نہیں تو وہ بھی سب کے سامنے لاتا ہے۔ یہ عمل رضاکارانہ طور پر طے پاتا ہے۔ کوئی شخص اگر بات نہ بھی کرنا چاہے (جیسا کہ شروع ایّام میں ہوتا بھی ہے) تو اس پر کوئی جبر نہیں کیا جاتا۔ میزبان کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کا احترام کریں۔ ہر شخص کو ایک سپانسر فراہم کیا جاتا ہے۔ سپانسر وہ شخص ہوتا ہے جو خود بھی کسی دور میں متعلقہ لت کا شکار رہ چکا ہوتا ہے۔ سپانسر کی حیثیت مشفق اور فکرمند بڑے بھائی یا بہن کی سی ہوتی ہے۔ جو گاہے بگاہے اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ اپنے سونپے ہوئے فرد کی ہر ممکن تربیعت اور سہارے کا باعث بنے۔

ان فلاحی مجالس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر کسی شہر میں حکومتی سطح پر اس کا انتظام نہ ہو تو کسی NGO کہ تحت ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اور خرچہ حکومت خود بھی اُٹھاتی ہے۔ یہ ادارے نہ صرف شراب بلکہ منشیات،بے جا شہوانیت، غصہ، گھریلو و ازدواجی تعلقات کی اصلاح جیسی چیزوں میں بعینہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ آپ شاید سمجھ رہے ہوں کہ یہ کوئی اصلاحی مرکز نہ ہوا، چھُومنتر سنٹر ہوا کہ جو آیا ٹھیک ہو گیا۔ ایسا قطعاً نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص "چار مہینے، دس دن اور بارہ گھنٹے" سوبر رہا ہو، مزیداتنا ہی وقت سوبر رہے۔ بلکہ اس بات کا بھی امکان ہوتا ہے کہ فرطِ جذبات میں وہ باہر نکلتے ہی اپنا" روزہِ مےخواری" توڑ دے۔ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ایک دن بھی سوبر نہیں رہ پاتے۔تو پھر اس کا فائدہ کیا؟ بات صرف اپنے آپ پر قابو پانے کی نہیں ۔ نہ ہی عام شہری کی سی زندگی بسر کرنے کی ہے۔ معاملہ اپنی غلطی کے اعتراف کا ہے۔ اس بات کے استدراک کا ہے کہ :میں کیا سی کیا بن گیا، کس راہ پر چل دیا؟ کس چوراہے پہ آکھڑا؟ ایسی مجالس میں کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کچھ بولتے ہیں، نہ کسی ہدایت پر عمل  کرتے ہیں ۔ مگر انکی شرکت بھی نفع سے خالی نہیں۔ کہ ان کو استدراک ہے اپنے مرض کا۔ اور جو شخص اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہ ہو کہ اس میں کسی غیر نافع عادت کا جرثومہ ہے تو بھلا اُس کا کیا علاج ہو؟
میرا بھی دل کرتا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی مجالس کا اہتمام ہو۔ لوگ ان میں شرکت کریں۔ میں بھی ان ملن گاہوں اور اصلاح گاہوں کا حصہ بنوں۔ ہم اپنی اَغلاط کا اعتراف کریں اور ان کی اصلاح میں جت جائیں۔ یہ مہذب معاشرے کی نشانی ہے اور تہذیب کی سیڑھیوں میں سے ایک سیڑھی ہے۔ ہم گناہ کر کے اس کا الزام شیطان پہ ڈال دیتے ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کو پایاءتکمیل تک پہنچانے میں شیطانیت ہماری ہی ہوتی ہے۔ العیازباللہ، وہ تو صرف اکساتا ہے۔ جس کی سزاءحق اس کو مل کر رہے گی۔ پر گناہ کو انجام تو انسان ہی دیتے ہیں ۔ اور عذاب بھی انسان کو بھگتنا ہے (اللہُ حفیظ)۔غلطی کرنے والے کو انسان اور اس کو سدھارنے یا سدھارنے کی کوشش کرنے والے کو اچھا انسان کہا جاتا ہے۔ اگر خطا کی ہے تو اس کا اعادہ کیوں نہیں؟ کیا ہمارا مسلمان صرف نعروں میں ہی گم ہو کر رہ گیا؟ لگتا ہے جلسوں سے فراغت کے بعد کسی نے اس کو گھر کا راستہ نہیں دکھایا۔ کمیونٹی سنٹر کی یہ مجالس اور اصلاح کے اس طریقہ کو، مسلم صوفیہ کی Piracy کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کسی دور میں یہ مجالس عام اور ایمان کی پرورش کا حصہ تھیں۔ پر اب شاذ ہی دکھنے کو ملتی ہیں۔ کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت" گورا لوگ" کو سزانہیں بلکہ انعام دینے کو دل کرتا ہے۔ اس رِیت کو قائم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُن کے ہاں، مسائل و  وسائل، دونوں حقیقی ہیں۔ ہماری طرح جعلی نہیں۔ اب ہم لوگ ۸ سے ۱۲ گھنٹے بجلی آنے یا جانےکا انتظار کرنے جوگے ہی ہیں(یہ کرم شہرِلاہور کے ساتھ خاص ہے۔ بقیہ علاقوں کا اللہ مالک)۔ کاش، ہم بھی کسی ڈائس کے سامنے کھڑے ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ : "میں سوبر ہوں۔۔۔!"

No comments:

Post a Comment