سیاست
دانوں کو کوسنا ہمارا معمول بن چکا ہے۔ ہر معاملے میں ان کو گھسیٹ دیتے ہیں۔ کوشش
میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی موقع ضائع نہ جائے۔ کاش کہ سیاست دان کی طرف داری میرے
کسی کام آتی اور صحیح ثابت ہوتی۔ پر معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ ہر فضول چیز میں بن
بلائے مہمان بننے کی عادت نے سیاست کو گندا کر کے رکھ دیا ہے۔ حالیہ دنوں ملک کی
نامور طالبہ اور رکارڈ یافتہ، ارفع کریم انتقال کر گئیں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔
قسمت والی تھیں جو اتنی کم عمر میں اتنا نام کما گئیں۔ نہ صرف نام، بلکہ مزے بھی
کر گئیں۔ اب آخرت کے بھی مزے لے رہی ہوں گی (انشاءاللہ)۔ خوش نصیبی تھی جو
جلدی چلی گئیں۔ اک فرشتہ تھیں ، اب اپنے جیسوں کے ساتھ ہوں گی۔ بد قسمت تو ہم
ٹھہرے جو انکی وفات پر اپنا منجن بیچنے میں مصروف ہیں۔ اس "یوتھ" نامی
بندر کے ہاتھ "سوشل نیٹورک" کی ایسی ماچس لگی ہے کہ جس نے جنگل کے حقیقی
جانوروں کو ماتھا پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ ہم بندروں کو یہ ہی نہ پکا ہو سکا کہ
مرحومہ کا نام "ارفع" ہے یا "عارفہ"۔ بیشتر لوگ
"عارفہ"لکھ لکھ کر اپنے "وال" پہ تعزیت کی شکل میں کریڈٹ وصول
کر رہے ہیں۔ اُس پر المیہ یہ کہ ایک بچی کی وفات کی خبرکو لوگ دھڑا دھڑ"Like"کر رہے ہیں۔ ایک عدد تعزیہ جاری کیا اور پھر اُلو کی
طرح ٹکٹکی باندھے بیٹھے رہتے ہیں کوئی مسکین دو لفظ حوصلہ کے انکی وال پر
بھی لکھ جائے۔
اخلاقیات
کے بحران کا شکوہ پاکستانیوں سے کرنا سرا سر نا انصافی ہو گی۔ یہ بحران تو عالمی
ہے۔صدیاں نہیں، ہزاریے گزر جانے کے باوجود ہم آج بھی مہذب نہ ہو سکے۔ اک انسان کی
موت پر سیاست کر گئے۔ کسی نے خادمِ اعلٰی کو کوسا ۔ تو کسی نے وفاقی حکومت
کو۔ پیر پگارا جیسے بابے کو بھی گندا کر ڈالا جو کہ خود ان دنوں موت کی کشمکش میں
تھا اور ارفع سے پہلے ہی کوچ کر گیا۔ بہر حال، ہمارا منجن تو بک گیا۔ ارفع کے گھر
والوں سے تعزیت بھی ہو گئی۔ ہمیں بھی Tweet اور Status
کو اپ ڈیٹ کرنے کا بہانہ مل گیا۔آئی ٹی ٹاور کو نیا نام مل گیا۔
میڈیا والوں کی تو پوچھو ہی نہ۔ مگر اس سارے معاملے میں ہم یہ کیوں بھول گئے کہ یہ
ارفع آخری ارفع نہیں تھی۔ ہمیں تو اللہ نے گھر گھر میں ارفع جیسے پھول عطاء کیے
ہیں۔ اتنے مایوس تو "ہیروشیما"کے باسی بھی نہ ہوئے ہوں، جب ان پہ ایٹم
بم جیسی آفت نازل ہوئی تھی۔ ڈرامہ کوئین بھی کوئی ہم سا نہ ہو گا۔ ہم نے ہی
عمران خان کو "Hope of Pakistan" کی بجائے "Last
hope
of Pakistan" بنا دیا۔ کہ
خدانخواستہ کچھ خراب ہو تو سارا ملک ہی اس غم میں مجنون بن کے ٹکرے مارتا پھرے۔
اور
کیا ہونہار صرف ایک MCSE
والا بچہ ہی ہو سکتا ہے؟ کیا کم عمری میں گھروں میں پوچے لگاتی بچیاں جو بلا سوال کیے
ماں،باپ کا سہارا بن جاتی ہیں، ان کی کوئی قدر نہیں۔ شاید اسکی ہمت کے پیچھےMicrosoft® جیسا عالمی برانڈ نہیں۔ تو کوئی بات نہیں۔ ٹاٹا سوپ فیکٹری ہی
سپانسر کر دے۔ اس سے بھی کام چل جائے گا۔ پر نہیں جی۔ ہم نے تو معصومیت، ہمت ،
ہونہاری جیسی چیزوں کو ارفع کے ساتھ ہی دفن کر دیا۔ اب چاہے صغریٰ مائی کی بچی
جتنی بھی محنت سے جھاڑو لگائے، پا ندیم کا لڑکا چاہے جتنی مرضی اپنے مکینک استاد
سے ڈانٹ کھائے۔ پر ہمیں تو انہیں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے جن کو میڈیا پزیرائی
دے۔ کہ مائی صغریٰ نے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ شاوا بھئ شاوا!
No comments:
Post a Comment