یونانی لوک کتھا کی مطابق فاریجیا کا
ایک بادشاہ تھا۔ جس کا نام "میداس" تھا۔ ایک دن ایک بھٹکا ہوا
شاعر، سائلینس نشے کی حالت میں میداس کے مشہور گلابوں کے باغیچے میں آ گھسا۔ شاہی
نوکروں نےگھس بیٹھیا سمجھ کر اسے پکڑ لیا۔ میداس نے سائلینس کو پہچان لیا۔
اس کو اپنا مہمان بنایا اور ۱۰
دن تک خوب خاطر تواضع کی۔ سائلنس نے اس حسن سلوک کے بدلے میں میداس کو صلہ دینا
چاہا۔ اور کہا کہ مانگ کیا مانگتا ہے۔ میداس نے کہا کہ مجھے ایسی طاقت مل جائے کہ
میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں سونا بن جائے۔ سائلینس چیونکہ عام شاعر نہ تھا بلکہ یونانی
دیوتا کا شاہی شاعر تھا۔ اس لیے اس نے اپنی مافوق الفطرت طاقت سے میداس کی خواہش
پوری کر دی۔ میداس اپنی نئی طلسماتی طاقت کو لے کر بہت جوشیلہ اور خوش ہوا۔ دعوت
کا اعلان کیا۔ اب جب کھانے بیٹھا تو جس چیز کو ہاتھ لگائے، سونا بن جائے۔ اب
جناب پریشان ہوئے۔ کھانا کھانے کی حد تک تونوکروں سے کام چل گیاہو گا۔ پرایک
دن فرطِ جذبات میں اپنی بیٹی کو پیار کرنا چاہا تو وہ سونے کی بن گئی۔ اب کیا تھا؟
بادشاہ رویا ،گڑگڑایا۔ اور "ديونيزوس" (میداس کا وہ خدا جس کا سائلینس
درباری شاعر تھا)سے رو رو کرالتجاءکی کہ اسکی طاقت واپس لے لی جائے۔ اور اس عذاب
نما تحفے سے چھٹکارا ملے۔(بعض روایات کے مطابق وہ فاقہ کر کر کے تنگ آگیا تھا۔ اس
وجہ سےطلسم کے ختم ہونے کی دعا کی۔ ) ديونيزوس نے میداس کو کہا کہ وہ
"دریاءپکتولس" میں اپنا ہاتھ دھو لے۔ قصہ مختصر۔۔۔ میداس نے ہاتھ دھوئے
اور جان چھڑائی۔ کہتے ہیں کہ دریاءِپکتولس کی ریت اس کے بعد سونے کی ہو گئ تھی۔
بادشاہ میداس نے ادھر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اور دریا کی ریت سے خوب نفع
کمایا۔
ایک کہانی پارس نامی پتھر کی بھی ہے۔ جس کے متعلق مشہور ہےکہ جس بھی دھات سے چھوؤ، اسکو سونے کا بنا دیتا ہے۔ انگریزی میں اسے "Philosopher's Stone" کہا جاتا ہے۔ لوک کتھا، دیو مالا ، من گھڑت قصے یا بچوں کو سلانے کی کہانیاں۔ جو مرضی کہیے۔یہ چیزیں اب تو انڈیانا جونز جیسے مہم جو کو بھی ڈھونڈنے سے نہ ملیں۔ پر ان کی متضادشکلیں ضرور مشاہدے میں آئی ہیں۔یہ چیزیں انسان اور اشیاء دونوں صورتوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بعض کاروبار ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کا سارا پیسہ کھا جاتے ہیں اور بدلے میں وہ کنگال ہو جاتا ہے۔ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں کہ اپنے بسنے والوں کا سکون چھین لیتی ہیں۔ آقاءِدو عالمﷺ نے بھی ایک حدیث میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ نحوست کا ویسے تو وجود نہیں۔ اگر ہوتا تو ان ۳ چیزوں میں ہوتا۔ سواری، گھر اور عورت۔ کہ ان کا ان کے مالک کے کام نہ آنا ہی انکی نحوست ہے۔
ایسے ہی بعض لوگ اس قدر مجبور ہوتے
ہیں کہ جس چیز کو ہاتھ لگائیں مٹی کر جاتے ہیں۔ جس کام میں ہاتھ ڈالیں گے، وہ کام
ٹھپ ہو جائے گا۔ جس نشست پر بیٹھیں گے، وہ چبھنا شروع ہو جائے گی۔ جدھر پیسہ
لگائیں گے، کنگال ہو جائیں گے۔ گاڑی لیں گے تو سٹپنی خراب۔ موبائیل کے لیے پیسے
جمع کریں گے تو موبائیل ہی مارکٹ سے آؤٹ ۔ کالج میں داخلہ لیں گے تو اگلے سمسٹر کے
پیسے نہیں جوڑ پائیں گے۔خوب رُو، حور جیسی حسینہ اگر ان سے کبھی پھنس بھی جائے تو
شادی کے بعد قوقاف کی ساس بنا دیتے ہیں۔(کہانی کچھ زیادہ ٹریجک نہیں ہو
گئی؟) ہنرمندی، قابلیت ان جیسوں کے کام نہیں آتی۔ اور "اپنے ہاتھوں سے تقدیر
لکھنے کی باتیں " محض باتیں دِکھتی ہیں۔(اور شاید حقیقت یہی ہی کہ جس کا
جگُاڑ لگ جائے، وہی کامیاب۔ آگے بے شک جتنی مرضی بھڑکیں مارے۔) ان بخت ماروں کے
لیے نحوست جیسے لفظ کا استعمال کافی سخت دکھتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ جب حضور ﷺ نے
استعمال کیا تو ہم کیوں نہیں؟ تو بات یہ ہے کہ نبی جی ﷺ کا جس پس منظر میں
کہنا ہے اور جس معنی کا لحاظ کر کے کہنا ہے، ہم اس کی رعایت نہیں کرتے۔ نبی جی ﷺ
معنی "بے کارگی" کا کرتے ہیں اور ہم نحوست کولعن طعن میں استعمال کرتے
ہیں۔
میں نے بھی اچھی بھلی چھان پھٹک کی۔
اپنے محدود ذرائع میں کافی کچھ دیکھا۔ پر کوئی مناسب لفظ مل نہیں پایا۔
انگریزی میں ان لوگوں کے لیے ایک لفظ "Anti-Midas" ملا۔ وہ بھی Urban Dictionary میں۔ اُردو میں
میداس جیسے شخص کے لیے پارس کہہ دیا جاتا ہے۔ پر اسکی ضد لفظی شکل میں موجود نہیں۔
قریب ترین معنی "مخالف المیداس"بنتا ہے۔ وہ بھی عربی میں۔عربی کا ہاضمہ
کیونکہ کافی اچھا ہے اوریورپی الفاظ بڑی آسانی سے ہضم کر جاتی ہے۔ اس لیے کوئی
مسئلہ نہیں۔ بات اُردو کی ہے۔ اُردو میں یَک لفظی معنی کریں تو "اَن
میداس" کچھ نہ کچھ مناسبت قائم کر جاتا ہے۔ نئے الفاظ کا تعارف اُدبا
کا کام ہے۔ پر ہمارے ہاں پچھلی کافی دھائیوں سے اُردو ادب، بے ادب ہو کےرہ گئی ہے۔
خیر مجھ جیسے نو سکھیے نے اسے introduceکرا دیا ہے۔ اُردو ادب نہ سہی، پاپ
لیٹریچر کا ہی حصہ بن جائے۔
رہی بات "اَن میداسوں"
کی۔۔۔ تو ان سے میری گذارش ہے کہ میرے متھے نہ ہی لگیں تو ان کی مہربانی۔
اور اللہ آپ جیسوں کا حامی و ناصر!
اَن میداسوںؔ کے اس دیس میں شمع نہیں
کہیں
گھر گھر میں بسیرا ہے شام سے نکلی کالک کا
گھر گھر میں بسیرا ہے شام سے نکلی کالک کا
مٹّی کر گئے سونے کولمسِ بے مراد سے
بکھری خاک نتیجہ ہے، ان کی اس عادت کا
بکھری خاک نتیجہ ہے، ان کی اس عادت کا
No comments:
Post a Comment