کچی کم سن کرنیں
گُل ہو جاتی ہیں
یکے بعد دیگرے
گُم ہو جاتی ہیں
غم سے نڈھال آنکھیں
غم سے تھکی آنکھیں
رو رو کے اچانک
سُن ہو جاتی ہیں
چُبھتے ضرور ہیں سب کو
بچھڑے ہوئے سائے
پر رات کی نیند میں چُبھن
چُپ ہو جاتی ہیں
گہری سوچ کے بادل
چُرا لیتے ہیں مجھے
پھر سانسیں مری ان بادلوں میں
آہیں بن جاتی ہیں
جم جاتی ہے حیات
کڑکتی ٹھنڈ کے آغوش میں
پر اَن چاہی اذیتیں
مجھ کو مُرجھاتی ہیں
چار دن کا مجھ کو
دلاسہ دیتے ہوئے
تیری باتیں لوریوں میں
گنگناتی ہیں
بیتی جاتی ہے زندگی
بے ڈھنگی پاداش میں
اور خاموش صحرا میں میری شکایتیں
چُپ ہو جاتی ہیں
No comments:
Post a Comment