Monday, October 28, 2013

کافکا کا تخت



(فرانز کافکا کے نام)
کافکا  کے تخت کی دھونی   سبھی لینا چاہتے ہیں۔ وہ بادشاہ نہ تھا۔ ادب اور تصور کی الگ سی ریاست کا وزیر تھا۔ بھول بھلیاں، تشویش، تجسس۔۔۔۔  شاعری کے گھاٹ پہ جمع ہوتیں۔ اور مدھم سی پرُ وقار  بغاوت کی روشنی میں ہم کلام ہوتیں۔ یہ عہدہ اسی کا تھا۔ اسی کا رہا۔ اور تخت کی گدی اپنے جالس کے انتظار میں ٹھنڈی رہی۔ کافکا، کافکا تھا۔ وزیر ہو کر بھی مفلس رہا۔ اپنے خزانے ریاست کے لوگوں اور ان کی نسلوں کے لیے چھوڑ گیا۔ اس کے خزانے، اس کے خیالات کے قیمتی بادل تھے۔ جو آج بھی برستے ہیں تو تجسس کے پیاسے کو سیراب کرتے ہیں۔ کافکا کے تخت کی دھونی سبھی لینا چاہتے ہیں۔ اس تخت کی دھونی کی مہک کے سبھی دلدادہ ہیں۔ مگر اصل خوشبو تو اس کی روح بکھیرتی ہے۔ آج بھی جب ادبی دربار سجتا ہے ،بادشاہ اور وزرا براجمان ہوتے ہیں، اپنے فرمان پڑھتے ہیں۔   اور کافکا کی روح عام درباریوں میں کھڑی اپنی خوشبو بکھیر رہی ہوتی ہے۔ اور لوگ رشک کرتے ہیں اس خالی تخت کے جالس سے۔ مگر اس کا عہدہ بھی اس کی کتابوں کی طرح پر اسرار ہے۔ لالچ اور طمع سے پاک ہے۔ یہ کالا کیچڑ تم کافکا کی ریاست میں نہ پاؤ گے۔ کافکا ان سے عاری تھا۔ اور انہیں کے وصال کا  رمزی خوف کافکا کی جان لے گیا۔ مگر ادب کے ریاست کا  یہ بے غرض وزیر جو ساری زندگی منشی بنا قلم گھستا رہا۔ کچے چٹھے بھرتا رہا۔ اپنی جنگ میں کامیاب رہا۔

No comments:

Post a Comment