Wednesday, June 27, 2012

بے نتیجہ


گمنام خواب۔۔۔ بکھرے تصور۔۔۔  ادھورے ابواب۔۔۔  کچے ہنر۔۔۔   بے نتیجہ انجام۔۔۔   بس یہی ہے میرا نام۔ لوگوں سے نہ بنے میری ۔ اور بگڑیں میرے کام۔ بن روشنی کے صبح۔ گھپ اندھیرے کی شام۔ ٹوٹے دل کا مالک ہوں ۔ بے نتیجہ میرا انجام۔ بٹی سوچ ، دوہرے عقائد۔ زندگی کا عنوان بنا لفظ "شاید"۔ د وکشتی کا مسافر ۔۔۔نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا۔ بٹ گیا منزلوں میں ۔۔۔میں کدھر کا؟ ہاتھ لگا جو سونا ، وہ بھی مٹی ہوا۔ راتوں کا بھیانک سپنا بھی ستّی ہوا۔ جینا نہیں کہتا میں ان سانسوں کو۔پھاند لے جو قسمت میرے ہاتھوں کو۔ بھوت ضرور ہوں پر آوارہ نہیں۔ چُھپ کے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ شرمندہ ہوں اپنی حالت پہ۔ روتا بھی ہوں اور تکلیف میں بھی۔ پیٹ دیتا ہوں سر ایسی جہالت پہ۔ معمولی آدمی ہوکر بھی زندگی معمول نہیں۔ پھنسی پھنسی سی رہتی ہے ۔شکنجے میں جیسے اٹکی ہوئی رہتی ہے۔  جھوٹ ہوگا اگر کہوں کہ یہ مجہول نہیں ۔ اب مزید گرنا مجھ کا قبول نہیں ۔ بس جیسا ہوں،  ویسا ہی ٹھیک ہوں۔  جو خرابی ہے، وہی میری پہچان۔ ٹوٹے دل کا مالک ہوں ۔ بے نتیجہ میرا انجام۔

No comments:

Post a Comment