Sunday, January 13, 2013

کیا میں تم کو آج بتا دوں



کیا میں تم کو آج بتا دوں۔۔۔؟! کہ دہائی کے کنارے پر، میں نے تم کو جھانکتے دیکھا تھا۔ کچھ شوخ تمہاری آنکھوں میں، مجھے دمکتی سی دکھائی دی ۔ اک نازک لمحے کی مسکان، میں نے پرکھی کچھ تمھارے پہ۔ پھر میری دلچسپی پہ تم، فوراً ہی خود میں آگئی۔ جو چلی تھی سوچ کے سفر پہ تم،نہ بھٹکی تم یوں یہاں وہاں، سیدھا ہی واپس آگئی۔  کچھ عجیب تولگا وہ مجھ کو بھی، کچھ میں نے بھی تم کو بھانپ لیا۔ جو تم نے سوچ کے روکا خود کو ، وہی بات کو سوچ کے میں نے بھی، اس خیال کو دل سے نکال دیا۔ پھر بھول گیا میں کچھ سالوں کو، اُس بات کو، اُس رات کو۔  کبھی آتا ضرور خیال تم کا، پر ٹال دیتا میں اس بات پر۔ کیا کر سکتا میں چاہ کر بھی ، ان خالی  بے قسمت ہاتھوں میں، بھلائی نہیں کسی کے لیے۔ کس دنیا میں تمہیں رکھتا میں؟یہاں رش لگے حیوانوں کے۔ میری قیمت نہیں انسانوں میں۔ پھر دل ہی دل بھلُا دیتا۔ تم یاد کبھی جو آتی تو۔ 
اب دیکھا تم کو میں نے پھر، دہائی کے اِس کنارے پر۔ دُور بہت تھی مجھ سے تم لیکن، کتنی حسین لگ رہی تھی۔ میں نے دیکھا تم کو دوری سے، پر دیکھا بڑی مجبوری سے۔ وہ شوخ پن ، وہ مسکان۔۔۔ اب عیاں تھا پہلے سے زیادہ سب۔ پر دکھ سے جانا میں نے یہ، باعث ہے اس کا میں نہیں اب۔ کسی اور کے نام کی مہندی تھی، کسی دوسری جان کا سایا تھا۔ کچھ دیر جو بھٹکا تھا میں، واپس کو لوٹ آیا تھا۔ میں دیتا ضرور دُعا تم کو، پر سانس نصیب نہ آیا تھا۔ جو کہنا نہیں تھا مجھ کو کبھی، وہ بات میں لکھے دیتا ہوں۔ میں تم سے کہے دیتا ہوں۔ میں نےجھانک لیا تھا اُس رات مگر، کیا کرپاتا تمہیں چاہ کر بھی؟ کیا دیتا میں تمہیں پا کر بھی؟