Sunday, August 21, 2011

میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔

میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
جو گرنا نہ جانے
جو اپنی بنیادوں پر ٹکا رہے
صدیوں کی بے راہ روی کو سہہ سکے
میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
میں رشتے ناطوں کے
 انجان بندھنوں میں جکڑا ہوں
یہ بیڑیاں کبھی زنجیر ہیں تو کبھی پایل
میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
جو ان رشتوں کی بیڑیوں کو توڑ نہ سکوں
اور پھر ان زنجیروں کو
 ہاتھوں میں پکڑ کےروؤں نہ
میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
جسے مارو تو خون نہ بہے
جو تکلیف سے بالاتر ہو
جو آنسو چھپالے
مجھے کاٹو گے تو خون بہے گا
کبھی میں نونہال بچے کی طرح چلاؤں گا
تو کبھی کسی صابر بزرگ کی طرح
دو آنسو ٹپکاؤں گا
میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
جو اپنی تکلیف کو صبر سے ہی برداشت کروں
میں اپنی ذات سے گر جاؤں گا
میں سڑکوں پر چلاؤں گا
اور چلاتے چلاتے تھک کے سو جاؤں گا
میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔
جو چپ چاپ کھڑا رہے
نہ کبھی اپنے آپ کو
نہ پڑوسی کو دیکھے
یہ پہاڑ ہی ہوتا ہے
جو نہ دن کو ، نہ رات کو سوتا ہے
وہ اپنی ذات کے غاروں میں گم ہوتا ہے
اُسے نہ تکلیف، نہ احساس، نہ ہی دکھ ہوتا ہے
اُسےکودنا نہیں آتا
اُسے منزل کی پرواہ نہیں
وہ تو خود ایک منزل ہے
لوگ اس کو طے کرتے ہیں
پہاڑ بلا حالات کو کیا جانے
پہاڑ رشتوں کو کیا پہچانے
اِک انسان ہی ہے
جو رشتے ناطوں کو بنائے اور توڑے بھی
جو انسان کو انسان سے درنندہ بنادے
اور کبھی کبھار درندوں کو بھی شرمندہ کر دے
پہاڑ کا کیا ہے؟
تم اُس کا کنکر چراؤ
یا چراؤ سنگِ مر مر ۔۔۔
وہ نہ بولا ہے نہ بولے گا
تم جتنے چاہے سنگ چیر چلادو
وہ چوں سے چاں نہ کرے گا
کیوں کہ وہ پہاڑ ہے
پر میں انسان ہوں، پہاڑ نہیں ۔۔۔